غزہ میں نسل کشی کی تصدیق کرنے والی، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صدر نے کہا کہ ”اس معاملے پر عالمی اتفاق رائے میں اضافہ ہوا ہے۔“
EPAPER
Updated: September 24, 2025, 8:05 PM IST | New York
غزہ میں نسل کشی کی تصدیق کرنے والی، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صدر نے کہا کہ ”اس معاملے پر عالمی اتفاق رائے میں اضافہ ہوا ہے۔“
نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۸۰ ویں اجلاس میں، عالمی لیڈران نے غزہ کے بحران اور فلسطین کو تسلیم کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، کنیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی، پولینڈ کے وزیراعظم کارول ناوورکی اور جنوبی افریقہ کے وزیراعظم سیرل رامافوسا نے اپنی تقریروں میں اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بنانے اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے فوری مطالبات پر زور دیا۔
میکرون کا انتباہ: ’اگر اسرائیل فرانس پر پابندیاں لگاتا ہے تو ہم جواب دینے کیلئے تیار ہیں‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ اگر فرانس کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد اسرائیل اس پر پابندیاں لگاتا ہے تو فرانس جواب دینے کیلئے تیار ہے۔ منگل کو بی ایف ایم ٹی وی سے بات کرتے ہوئے میکرون نے کہا کہ”اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہم جواب دیں گے۔ ہم ہر چیز کیلئے تیار ہیں۔“
یہ بھی پڑھئے: اسپین نے اسرائیل پر مکمل پابندی عائد کردی
انہوں نے فرانس کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے زور دیا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا حماس کو الگ تھلگ کرنے اور امن حاصل کرنے کا ”واحد راستہ“ ہے۔ میکرون نے کہا کہ اسرائیل کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے اور وہ اپنے لوگوں کو ”دائمی جنگ“ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس صورتحال میں امریکہ کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، کیونکہ وہ غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
میکرون نے خبردار کیا کہ غزہ میں جاری فوجی کارروائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر فوجیں آگے بڑھتی رہتی ہیں اور عام شہریوں کو قتل کرتی رہتی ہیں، تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔“ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر اسرائیل پر زیادہ سخت دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا اور مزید کہا کہ ”آپ کو نوبل امن انعام ملنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ اس تنازع کو روکیں۔“
کنیڈا کا ہدف: ’دو ریاستی حل‘
کنیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے کہا کہ ”اسرائیل ہمیشہ سے جانتا تھا کہ آخری ہدف دو ریاستی حل ہے، جس میں دونوں اقوام شانہ بشانہ رہیں گی۔“ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ جیسے جیسے اسرائیل غزہ پر اپنا حملہ تیز کر رہا ہے، یہ امید ”کم ہوتی جا رہی ہے۔“ واضح رہے کہ کنیڈا نے اس ہفتے باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے اور فرانس، برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کے ساتھ فلسطینی ریاست کے حق کی حمایت کی ہے۔ کارنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ اقدام ضروری تھا کیونکہ امن کا راستہ، تیزی سے ہاتھ سے پھسل رہا تھا۔“
امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے خطرات کے بارے میں پوچھے جانے پر کارنی نے کہا کہ وہ اس بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”کنیڈا کا امریکہ کے ساتھ دنیا کا سب سے بہترین تجارتی معاہدہ ہے اور یہ بنیادی بات ہے۔“ کارنی نے دفاعی خریداریوں پر بھی سوالات کے جواب دیئے اور کنیڈا کے ۱۲ آبدوزوں اور ۸۸ ایف-۳۵ لڑاکا طیارے خریدنے کے منصوبوں کا ذکر کیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ پرعرب لیڈران کی ٹرمپ سے ملاقات نتیجہ خیز اور مثبت رہی: طیب اردگان
پولینڈ کے صدر کا اسرائیل سے بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے، یورپی ملک پولینڈ کے صدر کارول ناوورکی نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں اپنی جنگی مہم کے دوران بین الاقوامی انسانی قانون کی پیروی کرے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ ناوورکی نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کیلئے پولینڈ کی حمایت کا اعادہ کیا جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کیلئے امن اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔
ناوورکی نے عالمی سلامتی پر گفتگو کرتے ہوئے روس کی یوکرین پر چڑھائی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ’یورپ میں سب سے سنگین تنازع‘ قرار دیا۔ انہوں نے پولینڈ کے علاقے پر روس کے حالیہ ڈرون حملے کا ذکر کیا جو جنگ کے بعد ایسا پہلا واقعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پولینڈ کو فوجی طور پر جواب دینے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے ماسکو پر براہ راست الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ”یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔“
ناوورکی نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر سزا دینے کیلئے احتساب کے نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”بین الاقوامی سرحدوں، انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون۔۔۔ جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا چاہئے۔“ انہوں نے یورپی یونین کی نقل مکانی اور آب و ہوا کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی اور دلیل دی کہ وہ معیشتوں اور زراعت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اٹلی میں غزہ جنگ کے خلاف زبردست احتجاج، لاکھوں افراد سڑکوں پراترے
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ کیا
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ان کا ملک بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) پر اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دینے کا فیصلہ کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم نے جانیں بچانے کے مفاد میں یہ کارروائی کی ہے۔“ انہوں نے عدالت سے تشدد کو ختم کرنے کا حکم دینے کی اپیل کی۔
رامافوسا نے مندوبین کو یاد دلایا کہ جنوبی افریقہ نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا تھا اور آئی سی جے پہلے ہی اسرائیل کو مظالم کو روکنے کا حکم دے چکی ہے۔ انہوں نے برازیل، کولمبیا، میکسیکو، اسپین، ترکیہ، چلی اور آئرلینڈ کے اس مقدمے میں شامل ہونے کا خیرمقدم کیا۔
غزہ میں نسل کشی کی تصدیق کرنے والی، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جنوبی افریقی صدر نے کہا کہ ”اس معاملے پر عالمی اتفاق رائے میں اضافہ ہوا ہے۔“ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر پیر کو ہونے والے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کی تعریف کرتے ہوئے اسے ”تاریخی“ قرار دیا اور کہا کہ یہ ۱۴۲ اقوام کے ارادے کی عکاسی کرتا ہے۔ رامافوسا نے کہا کہ اب ۱۵۹ اقوام متحدہ کے رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کرتے ہیں جو اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ ”فلسطینی ایک پرامن اسرائیل کے ساتھ ایک پرامن ریاست کے مستحق ہیں۔“
غزہ نسل کشی
غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل آئی سی جے میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔