فرانس، کنیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور بیلجیم جیسی عالمی طاقتوں نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے جبکہ انڈورا، موناکو، لکسمبرگ، مالٹا اور سلووینیا بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 23, 2025, 5:18 PM IST | New York
فرانس، کنیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور بیلجیم جیسی عالمی طاقتوں نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے جبکہ انڈورا، موناکو، لکسمبرگ، مالٹا اور سلووینیا بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۸۰ ویں اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں ۱۰ سے زائد ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس، کنیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور بیلجیم جیسی عالمی طاقتوں نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے جبکہ انڈورا، موناکو، لکسمبرگ، مالٹا اور سلووینیا جیسے یورپی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب غزہ میں تاحال جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطین کو تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد اب ۱۴۰ سے تجاوز کر چکی ہے۔ عالمی لیڈران اسے کو فلسطینی عوام کیلئے انصاف اور دو ریاستی حل کے قیام کی سمت ایک تاریخی قدم قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ کئے گئے اعلان کے مطابق، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ۲۲ ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرلیا۔ میکرون نے اس موقع پر عالمی لیڈران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”امن کا وقت آ گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس اسے حاصل کرنے کیلئے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔“ انہوں نے غزہ پر اسرائیل کی بمباری روکنے اور یرغمالیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ آسٹریلیا، برطانیہ اور کنیڈا ۲۱ ستمبر کو فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست شناخت کرنے کیلئے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں لکسمبرگ، مالٹا، انڈورا اور موناکو جیسے ممالک نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اسے ایک اخلاقی اور تاریخی قدم قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: کئی ممالک کے ذریعہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے کیا معنی ہیں
انڈورا کے وزیر خارجہ، اِما ٹور فاوس نے غزہ میں بھوک اور جبری نقل مکانی کی سنگین صورتحال کو ”ناقابل برداشت“ قرار دیا۔ موناکو کے شہزادہ البرٹ دوم نے کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کے محفوظ سرحدوں کے حق اور فلسطین کی خودمختاری کے حق دونوں کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ”امن کا حصول حکم سے نہیں ہو سکتا۔ یہ مشترکہ ارادے کے ذریعے بنتا ہے۔“
لکسمبرگ کے وزیر اعظم لک فریڈن نے بیان دیا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ، مجموعی طور پر اسرائیل کے خلاف نہیں، بلکہ نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم اسرائیل کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کے اقدامات کے خلاف فیصلہ کر رہے ہیں۔“
علاوہ ازیں، بیلجیئم نے بھی نیویارک کانفرنس کے دوران فلسطین کو تسلیم کرنے کی تصدیق کرکے اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسپین اور آئرلینڈ نے بھی اس مہم کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے غزہ میں ہونے والی بمباری کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں اس قتل عام کو اب روکنا ہوگا۔“
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ کے اصولوں پر تاریخ کے سب سے جارحانہ حملے: انتونیو غطریس
اقوام متحدہ کا سخت ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے اجلاس میں انتہائی سخت الفاظ میں اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں، آباد کاروں کے ذریعے تشدد اور الحاق کی دھمکیوں کو ”اخلاقی، قانونی اور سیاسی طور پر ناقابل برداشت“ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات ”دو ریاستی حل کیلئے وجودی خطرہ“ ہیں۔ انہوں نے غزہ میں تباہ کن انسانی صورتحال کو ”غزہ کی منظم تباہی“ قرار دیا اور ”محصورعلاقے کی آبادی کو بھوکا رکھنا اور ہزاروں عام شہریوں کا قتل، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں،“ کی اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کی۔ غطریس نے زور دیا کہ ”فلسطینیوں کیلئے ریاست ایک حق ہے، نہ کہ کوئی انعام۔“ انہوں نے خبردار کیا کہ ان کے اس حق سے انکار، دنیا بھر میں انتہا پسندی کو ہوا دے گا۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم
فلسطینی قیادت کا ردِعمل
امریکہ نے فلسطینی حکام کو اس اجلاس میں شرکت کیلئے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے ویڈیو پیغام کے ذریعے خطاب کیا۔ انہوں نے جنگ کے خاتمے کے ایک سال کے اندر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ عباس نے کہا کہ ”فلسطینی عوام جمہوریت اور اقتدار کی پرامن منتقلی پر مبنی ایک ریاست چاہتے ہیں۔“ انہوں نے مزید ممالک سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ”جن ریاستوں نے اب تک فلسطین کو تسلیم نہیں کیا ہے ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ یہ قدم اٹھائیں۔“
یہ بھی پڑھئے: ترکی کی خاتون اول کا غزہ میں اسرائیل کے تعلیمی قتل عام کے فوری تدارک کا مطالبہ
ترکی نے اسرائیل پر سخت تنقید کی
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت، جو کبھی ہولوکاسٹ کے دوران تکلیفیں برداشت کرنے والی ایک معاشرے سے تھی، اب فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”غزہ میں قتل عام اپنی تمام تر شدت کے ساتھ جاری ہے اور کوئی بھی باضمیر شخص اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔“ انہوں نے اسرائیل پر بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کو بے گھر کر کے فلسطینی ریاست کو ناممکن بنانے کی کوشش کا الزام لگایا۔ اردوغان نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات کی ستائش کی اور اسے دو ریاستی حل کیلئے ”تاریخی فیصلے“ اور ”اہم سنگ میل“ قرار دیا۔ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا انخلاء اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی، جیسے فوری اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔
برازیل کا اسرائیل پر نسل کشی کا الزام
برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”فلسطینی عوام کو ختم کرنے کی کوشش“ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ریاست تین ستونوں پر مبنی ہوتی ہے، علاقہ، آبادی اور حکومت۔ فلسطین میں ان تینوں ستونوں کو منظم طریقے سے کمزور کیا جا رہا ہے۔ لولا نے غزہ کی صورتحال کو نسل کشی قرار دیا اور اعلان کیا کہ برازیل بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے مقدمے میں ایک فریق بنے گا۔ انہوں نے غیر قانونی اسرائیلی بستیوں سے درآمدات پر پابندی لگانے اور دفاعی برآمدات کو معطل کرنے کا بھی وعدہ کیا جو انسانیت کے خلاف جرائم میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں گھروں سے منتقلی کی قیمت ایک خاندان کیلئے ۳۰۰۰؍ ڈالر سے زیادہ: انروا
سلووینیا کی وارننگ
یورپی ملک سلووینیا کی وزیر خارجہ تانیا فاجون نے بھی غزہ کے بحران کو نسل کشی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھوکے بچوں کی تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ایک انسان ساختہ تباہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”جب وحشیانہ طاقت قانون کی جگہ لے لیتی ہے تو اس سے شہریوں کو تحفظ نہیں ملتا۔ اس کے باعث آنے والی نسلوں کیلئے عدم استحکام اور انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔“ فاجون نے فلسطین کو فوری طور پر تسلیم کرنے، دیرپا جنگ بندی اور عام شہریوں کے تحفظ پر زور دیا۔
جاپان کا مضبوط پیغام
جاپان، جس نے ابھی تک فلسطین کو تسلیم نہیں کیا ہے، نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر وہ دو ریاستی حل میں رکاوٹ ڈالتا رہا تو اسے ”نئے اقدامات“ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر خارجہ تاکیشی ایوایا نے غزہ میں انسانی بحران اور بستیوں کی توسیع کو ”مکمل طور پر ناقابل قبول“ قرار دیا۔ جاپان نے مغربی کنارے میں تشدد پر چار اسرائیلی آباد کاروں پر پہلے ہی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جو ٹوکیو کی طرف سے ایک نایاب تعزیری قدم ہے۔
ڈنمارک اور نیدرلینڈز کا مشروط شناخت کا اعلان
ڈنمارک اور نیدرلینڈز نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو ”کچھ شرائط کے تحت“ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی غیر مسلح کاری، فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات اور اسرائیل کی سلامتی کی ضمانتیں شامل ہیں۔ ڈچ وزیر خارجہ ڈیوڈ وین ویل نے کہا کہ ”نیدرلینڈز فلسطینی ریاست کو بعد کے مرحلے میں تسلیم کرے گا۔ یہ اس سیاسی عمل کا حصہ ہوگا جسے اب شروع ہونے کی ضرورت ہے۔“ ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے مزید کہا کہ ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کی کلید ”اب اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ فلسطینیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔“
یہ بھی پڑھئے: فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کے خلاف واپسی پرکارروائی ہوگی:نیتن یاہو کی دھمکی
امریکہ اور اسرائیل کا جوابی ردعمل
اسرائیل اور امریکہ نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ دونوں ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اقدامات پر سخت ردعمل ظاہر کیااور ان فیصلوں کو ’’حقیقت سے دور‘‘ قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی جبکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے ڈینی ڈینون نے خبردار کیا کہ عالمی لیڈران، امن کے بجائے ”دہشت گردی کی حمایت“ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات کی مخالفت کی۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس اقدام کو ”حماس کیلئے ایک انعام“ سمجھتے ہیں۔ امریکہ نے زور دیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
جرمنی اور اٹلی کا موقف
جرمنی اور اٹلی نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور زور دیا کہ صرف براہ راست مذاکرات ہی امن لا سکتے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ یوہان ویڈفول نے کہا کہ ”ایک مذاکرات شدہ دو ریاستی حل وہ راستہ ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو امن، تحفظ اور وقار کے ساتھ رہنے کی اجازت دے سکتا ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: اٹلی: بڑے پیمانے پر فلسطین حامی مظاہرے، غزہ نسل کشی کے خلاف یورپ کا احتجاج
غزہ نسل کشی
غزہ میں تاحال جاری اسرائیل کی تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۶۵ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔