ڈی سی آئی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء سے لے کر اب تک ۵۷؍ فلسطینی بچے ناقص تغذیہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ادارے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۵؍ بچے ہلاک ہوتے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 5:08 PM IST | Gaza
ڈی سی آئی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء سے لے کر اب تک ۵۷؍ فلسطینی بچے ناقص تغذیہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ادارے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۵؍ بچے ہلاک ہوتے ہیں۔
’’اسٹارونگ اے جنریشن: اسرائیل فیمائن کیمپئن ٹارگیٹنگ پیلسطینینچلڈرن ان غزہ‘‘میں شائع کی گئی رپورٹ میں ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین (ڈی سی آئی پی) اور ڈاکٹرز اگینسٹ جینوسائیڈ کے اشتراک سے کہا ہے کہ ’’اسرائیلی فوج بھکمری کونسل کشی کے ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہی ہے۔‘‘ اس رپورٹ میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے مئی ۲۰۲۵ء کے درمیان غزہ میں بھکمری کے ۳۳؍معاملات درج کئے گئے ہیں، جن میں سے ۹؍ معاملات میں متاثر ہ بچوں کی عمریں ایک ہفتے سے ۱۰؍ سال ہیں، جن کی وجہ سے بچوں کی موت ہوئی ہیں۔ بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے بچوں میں سب سے چھوٹا بچہ عزیز عبدالرحمٰن سلیم ہے جس کی پیدائش غزہ کے کمال عدوان اسپتال میں ہوئی تھی اور پیدائش کے ایک ہفتے بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا تھا۔رپورٹس میں کمال عدوان اسپتال کے ڈاکٹر حسام ابوصفیہ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ، جو اسپتال میں بچوں کے ڈاکٹر اور ڈائریکٹر تھے، جنہیں اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا تھا۔ حسام ابوصفیہ نے کہا تھا کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ناقص تغذیہ کا شکار ۷۰؍ تا ۱۰۰؍ بچوں کا علاج کرنا پڑتا ہے۔ ڈی سی آئی پی کی وکالتی آفیسر اور رپورٹس کے مصنفین میں سے ایک کیتھرین راوے نے کہا تھا کہ ’’یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی بچوں کو ختم کرنا یا تباہ کرنا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے ہیتی باشندوں کا جلاوطنی سے تحفظ ختم کیا،۵؍ لاکھ افراد پرجلا وطنی کا خطرہ
مہلوک فلسطینی بچوں میں ۳؍ سالہ ملا عبدل نبی بھی شامل ہے جس کی موت ۲؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو غزہ کے کمال عدوان اسپتال میں ہوئی تھی۔ ملہ عبدل نبی کے جسم میں پوٹاشیم اور میگنیشیم کی کمی تھی کیونکہ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں امداد اور دیگراشیاء کی رسائی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق آخری دنوں میں ملہ کو ریسپریٹر پر رکھا گیا تھاجہاں اس کی والدہ، جو اسپتال کے آئی سی یو میں نرس کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں،کو ان کی لاش کفن میں ملی تھی۔ ملہ کی والدہ نے کہا کہ ’’میرے ساتھیوں نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکنے کیلئے دروازہ بند کر دیا تھا۔جب میں اندر گئی، مجھے میری بیٹی مردہ حالت میں ملی۔ میری بیٹی میری آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوگئی تھی اور میں اسےبچا بھی نہیں سکی۔‘‘ ۲۰۲۴ء کے اوائل سے بچوں کو بھکمری کا نشانہ بنانا اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف مہم میں سے ایک ہے جن میں سے نوزائیدہ اور دائمی امراض کا شکار بچوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ عالمی برداری کی نااہلی نے اس بحران میں مزید اضافہ کر دیا جس کا آنے والی نسلوں پر اثر ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے ہیتی باشندوں کا جلاوطنی سے تحفظ ختم کیا،۵؍ لاکھ افراد پرجلا وطنی کا خطرہ
ان بچوں کو کس چیز نے کمزور بنایا ہے؟
غزہ کا ہر بچہ کچھ حد تک بھوک کے بحران کا سامنا کررہا ہے جبکہ بھکمری کی وجہ سے جن بچوں کی موت ہوئی ہیں ان میں کافی کمزوریاں دیکھی گئی ہیں۔ نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیںجن کا مدافعتی نظام اب ارتقاء کے مرحلے میں ہے اور جنہیں غذا کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بچے جسمانی طور پر سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچے کمزور تھےکیونکہ ان کی مائیںانہیں دودھ پلانے کےقابل نہیں تھیں۔ ڈی سی آئی پی کی رپورٹ کے مطابق ایسا ہی ایک کیس ۳؍ ماہ کی بچی انور الخداری کا تھا۔انور الخداری کی والدہ نے ریسرچر کو بتایا کہ ’’فوج کی پابندیوں کی وجہ سے دودھ کی کافی قلت ہے۔ خوراک کی کمی اور امداد کے داخلے پر پابندی کی وجہ سے میری چھاتی میں بھی دودھ نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: آسٹریلیا: سفید فام بالادستی کے نیٹ ورک ٹیررگرام کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا
انہوں نے دودھ کی کمی کی وجہ سے اپنے بچے کو ہونے والی تکلیف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’رات کو انور بھوک کی وجہ سے روتا رہتا ہے۔ اس کے جسم کا درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے اور تشنج (عضلات کا غیر ارادی طور پر سکڑنا) کا شکار ہوجاتاہے۔چار دن قبل اس کا انتقال ہوگیا تھا۔‘‘ دیگر بچے بھی جینیاتی یا متعدی امراض کا شکار ہیں جس کے علاج کیلئے انہیں مخصوص خوراک اور مسلسل طبی علاج کی ضرورت ہے جس سے وہ محروم ہیں۔ ایک کیس میں ۱۰؍ ماہ کا بچہ علی ابوزارہ، جسے سنجاد سکاتی سینڈروم ہے، کا وزن ۲؍ کلوگرام ہے اور اسپتال داخل کرنے کے باوجود اس کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔فرسٹ ہینڈ اکاؤنٹس کے مطابق ’’مالی مسائل بھی اس کی اہم وجہ ہے اور جہاں مہنگائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ آٹے کی ایک بوری کی قیمت ۵۰۰؍ ڈالر جبکہ کھانے پکانے کے تیل کی بوتل کی قیمت ۴۰؍ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ میں جنگ بند کرو، قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کرو‘‘
غریب خاندانوں کیلئےایک وقت کے کھانے کی بھی گارنٹی نہیں ہے
۱۱؍ مرتبہ نقل مکانی کا شکار ہونے والے غزہ کی ایک شہری راشا ابو جلال نے کہا کہ ’’غریب خاندانوں کیلئے ایک وقت کے کھانے کی بھی گارنٹی نہیں ہے۔ جن کے پاس سامان خریدنے کیلئے کافی رقم ہے وہ بھی سامان خریدنے سے قاصر ہیں کیونکہ بازاروں میں اشیاء کی سخت کمی ہے۔‘‘ڈی سی آئی پی کی رپورٹ کے مطابق ’’بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچے ایسے خاندانوں کے تھے جنہوںنے اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے والے شخص کو اسرائیلی حملے میں کھودیا ہے جس کی وجہ سے ان کے پاس پیسے کی کمی ہے اور وہ مہنگی اشیاء خریدنے سے قاصر ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ہندی نےاُدھو اور راج ٹھاکرےکو قریب کردیا! ۵؍ جولائی کو مشترکہ احتجاج کریں گے
امداد رسائی سے باہر ہے
جب خاندان کی کفالت کرنے والے شخص کو غزہ کے ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) سے امداد حاصل کرنی ہو تو انہیں ایک ایسا سفر طے کرنا ہوتا ہے جس کے بارے میں انہیںیہ معلوم نہیں کہ وہ زندہ بچیں گے بھی یا نہیں۔ امدادی مراکز پر نجی کانٹریکٹرز پہرہ دیتے ہیںجنہیں امریکی انٹیلی جنس سروس اور فوجی اہلکاروں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے فلسطینیوںپر اندھا دھند بمباری کی جاتی ہے۔ جو افراد زندہ بچ بھی جاتے ہیں انہیں یہ ڈر ہے کہ واپسی میں انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔اسرائیلی فوج اکثر سڑکوں پر انتظار کرتی ہے ، ان سے کھانے کے پارسل چھین لئے جاتے ہیں اور انہیں زیادہ قیمتوں میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ غزہ کے ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) ، جو امریکہ کا ایک رجسٹرڈ امدادی ادارہ ہے اور جو اسرائیل کی نگرانی میں کام کرتا ہے، نے ۲۶؍ مئی ۲۰۲۵ء کو غزہ میں اپنے امدادی آپریشن کی شروعات کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’میں شمالی غزہ میں ہوں، بھوک برداشت کر لوں گی لیکن جی ایچ ایف کی امداد نہیں لونگی‘‘
اقوام متحدہ (یو این) نے امدادی مراکز کو بھوک سے بے حال فلسطینیوں کیلئے ’’موت کا جال‘‘ قرار دیا تھا اور اسے فلسطینیوں کو جنوب کی جانب دھکیلنے کیلئے ایک سسٹم قرار دیا تھا جسے انسانی حقوق کے اداروں نے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا ایک طریقہ بتایا ہے۔۲۳؍جون ۲۰۲۵ء کو انسانی حقوق کے ۱۵؍ اداروں اوردیگر انسانی اداروںنے مشترکہ طورپر غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) اور اس سےمتعلقہ فرمز کو ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ادارہ غزہ میں اپنی انسانی امداد پرپابندی عائد کرےیا پھر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کیلئے قانونی نتائج کیلئے تیار رہے۔فلسطینی سینٹر فار ہیومن رائٹس اور دستخط کنندہ راجی سورانی نے کہا کہ ’’ یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے۔ جب وہ افراد جو نسل کشی کا ارتکاب کر رہے ہوں،ایسے لوگوں کو کھلانے کی ذمہ داری لیں جسے انہوں نے بھکمری کا شکار بننے پر مجبور کیا ہو۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم جنت میں لوٹ آئے‘‘
۱۳؍ مارچ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ۲؍مارچ ۲۰۲۵ء کو اسرائیلی پابندیوں کی شروعات ہونے کے بعد سے اب تک ۵۷؍ فلسطینی بچے ناقص تغذیہ کی وجہ سےہلاک ہوئے ہیں۔‘‘ ادارے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۵؍ بچے ہلاک ہوتے ہیں۔ بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہونےو الے بچوں کے زمینی اعدا د و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ہیومن رائٹس گروپ نے متنبہ کیا ہے کہ بھکمری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔طبی خدمات کی تباہی نے بھی بچوں کی موت پر گہرا اثر مرتب کیاہے۔